کثرت بیداری:دن بھر کام کاج اور محنت و مشقت سے ہمارا جسم تھک جاتا ہے اور کچھ نہ کچھ تحلیل ہوتا رہتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے گو خوراک لازم ہے مگر اس کی تکمیل کا انحصار آرام پر بھی ہے اسی لیے ہر جاندار کی بقائے صحت کیلئے لازم ہے کہ کام کاج اور محنت و مشقت کے بعد اس کو آرام و سکون بھی حاصل ہو نیند ایک مکمل آرام کی حالت ہے اور یہ جسم کی تحلیل کے بعد دوبارہ اس کی تعمیر کے لیے انتہائی لازم ہے۔ مکمل نیند کے بعد جسمانی خصوصاً دماغی تکان رفع ہو جاتی ہے اور جسم پہلے ہی کی طرح تر و تازہ اور توانا ہو جاتا ہے۔ روز مرہ کا تجربہ ہے کہ جب جسم کام کرتے تھک کر چور ہو جاتا ہے اور اپنے اندر مزید کام کی صلاحیت نہیں پاتا تو ایک میٹھی نیند سو لینے کے بعد پھر سے تازہ دم اور توانا ہوکر محنت کے قابل ہو جاتا ہے۔
مجموعی طور پر5 سے8 گھنٹے نیند کے لیے کافی ہیں۔ مگر جدید دور کے مشینی طرزِ زندگی نے جہاں انسان کو مالی طور پر آسودگی سے ہمکنار کیا ہے۔ وہاں ذہنی اور روحانی بے آرامی اور کمی نیند سے بھی دو چار کیا ہے جبکہ کثرت کار نے بیداری کے اوقات میں مزید اضافہ کردیا ہے جسم جتنی محنت کرتا ہے اسے جب اسی قدر سکون مہیا ہو نہیں پاتا تو طبیعت بے چین اور بیقرار رہتی ہے اور اعصاب جو پہلے سے تھک چکے ہوتے ہیں ان کی تکان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کثرت بیداری سے جسم انسانی پر نہایت مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گردوں کو بالخصوص زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے افعال میں بھی فرق آجاتا ہے ہضم کا عمل نیند کی حالت میں زیادہ اچھے اور اعلیٰ طریقے سے سرانجام پاتا ہے لیکن کثرت بیداری کے سبب ہاضمے کا فعل صحیح نہیں رہتا۔ اور فتور ہضم اور قبض کے عوارضات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دماغی افعال میںفتور پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کثرت بیداری سے دماغ میں پیوست پیدا ہو جاتی ہے جس سے نسیان، سر چکرانا، بینائی کا کمزور ہو جانا اور بعض اوقات متواتر بیداری سے دیوانگی اور مالیخولیا جیسے عوارض لاحق ہو جاتے ہیں۔ قویٰ میں ضعف اور وزن میں کمی ہو جاتی ہے متواتر جاگنے سے انسان دائم المریض نظر آتا ہے ایسے لوگوں کی آنکھیں سرخ اور پپوٹے متورم رہتے ہیں۔اور وہ ذہنی طور پر غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے جسم کی حرارت و خشکی میں اضافہ ہو جاتا ہے، اعضاء اور قویٰ بدن کمزور ہو جاتے ہیں۔ جبکہ افعالِ بدن صحیح و سالم نہیں رہتے۔
مشینی طرزِ زندگی:جدید ٹیکنالوجی نے انسانی دماغ کو جہاں بے حد و حساب مصروف عمل کردیا ہے وہاں جسمانی طور پر انسان میں سہل پسندی زیادہ شروع ہوگئی ہے اور آج کا انسان دو چار صدیاں پہلے کی نسبت بہت زیادہ تن آسان واقع ہوا ہے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں انسان نے صنعتی اعتبار سے بے حد ترقی کی ہے لیکن اس ترقی کا ایک پہلو بے حد افسوسناک ہے اور وہ یہ کہ موجودہ دور کا انسان اخلاقی اقدار کو چھوڑچکا ہے اور جسمانی طور پر بھی کمزور و ناتواں ہوگیا ہے، مشینی آلات نے جہاں احساس مروت کو کچلا ہے وہاں جسم انسانی کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان پر تکلف، پر آسائش اور سہل پسند زندگی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ انسان اپنے جسم کو حرکت میں لانے کی بجائے مشینوں کے ذریعے اپنے روز مرہ کے امور سرانجام دے رہا ہے۔ جسمانی حرکت میں کمی کے باعث دورانِ خون اور دیگر افعال اعضاء میں فرق آچکا ہے اور اعضائے جسم مضبوط و سڈول اور توانا ہونے کی بجائے کمزور رہ جاتے ہیںاور ان کی نشوونما کی جاتی ہے۔ طبیعت فضلات کو مکمل طور پر بدن سے خارج کرنے پر قادر نہیں رہتی جس سے فاسد مادے جسم پر زہریلے اثرات مرتب کرتے ہیں اور ان سے امراض مفاصل (جوڑوں کے امراض) امراض معدہ و امعاء اور امراض دوران خون کی وجہ سے اعضائے رئیسہ پر نہایت برا اثر پڑتا ہے اور جسم مختلف امراض کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
ہوس ِ زر:معاشرے میں اچھی اور باوقار زندگی بسر کرنے کیلئے جائز طریقے سے دولت کمانا اور اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنا بہت ہی ضروری ہے لیکن مال و زر کی ہوس اور اسے جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کی تگ دُو میں ہر دم مصروف رہنا جہاں اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کا باعث بنتا ہے وہاں جسمانی طور پر بھی اس کے بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مادّیت پرستی اور ہوس زَر نے قدم قدم پر انسان کے لیے مشکلات و مصائب کے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں ‘ انسان اپنی ضروریات سے زیادہ مال و زر کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے باہمی تعلقات میں خلوص و محبت محض دکھاوے کا رہ گیا ہے اور آپ کے تعلقات کچے دھاگے سے بھی زیادہ کمزور واقع ہورہے ہیں مالِ زر کی اسی ہوس نے انسان کو دوسرے انسانوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ کردیا ہے اور صبر و قناعت کی عظیم خوبی اس سے چھن گئی ہے۔جسے دیکھو وہی حصولِ زر کے لیے کوشاں ہے اسے نہ اپنے آرام سےغرض ہے اور نہ ہی اپنی صحت کا کچھ خیال، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کا ذہنی سکون لٹ گیا ہے جدید ترین ایجادات اور تمام تر آسائشوں کے باوجود وہ سکون و اطمینان کیلئے ترس رہا ہے۔ اس کے اندر کی تنہائی اس کے لیے وبال جان بن چکی ہے اور حقیقی مسرتوں اور خوشیوں سے ناآشنا ہوگیا ہے اسی صورت حال نے اسے ذہنی و نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ اس کی شخصیت کا توازن بگڑ چکا ہے جس کے باعث اس کی ذہنی و جسمانی زندگی عذاب مسلسل سے دوچار ہوکر رہ گئی ہے۔ کاروباری مصروفیات کے باعث نہ تو وہ وقت پر کھانا کھاتا ہے اور نہ ہی آرام کرتا ہے۔ ہر وقت کاروبار کے متعلق سوچ و بچار اور فکر و تردّد کے باعث اس کے اعصاب اور دیگر اعضائے بدن پر نہایت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اور مسلسل پریشانیوں سے رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہوگیا ہے جس کے باعث وہ دائم المریض نظر آتا ہے اور اپنے آرام و سکون سے محروم ہوتا جارہا ہے اور ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتا رہتا ہے اور پھر صبح کو پرتکلف اور دیر ہضم غذائوں کے استعمال سے اس کے اعضا پر مزید برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے دل، دماغ، جگر، معدہ اور امعا ءکے افعال میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور جسم مختلف بیماریوں کا مستقل طور پر ٹھکانہ بن جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں